مدارس کی اہمیت

مدارس دینیہ کی اہمیت

قرآن و سنت کی تعلیمات کے بغیر کسی اسلامی معاشرہ کی بقاءاور اس کے قیام کا تصور ممکن نہیں۔ قرآن و سنت اسلامی تعلیمات کا منبع ہیں اور دینی مدارس کا مقصد اسلامی تعلیمات کے ماہرین،قرآن و سنت پر گہری نگاہ رکھنے والے علماءتیار کرنا اور علوم اسلامیہ میں دسترس رکھنے والے ایسے رجال کار پیدا کرنا جو مسلم معاشرہ کا اسلام سے ناطہ جوڑیں اور دینی و دنیاوی امور میں راہنمائی اور اسلامی تہذیب و ثقافت کے تحفظ کا فریضہ انجام دیں۔

قرآن و سنت کے علوم و معارف سمجھانے کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دارارقم میں ایک درسگاہ قائم کی جس میں کلمہ پڑھنے والے لوگوں کی اخلاقی اور روحانی تربیت کی جاتی تھی۔ بیعت عقبہ ثانیہ کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مصعب بن عمیر ؓ کو مدینہ بھیجا آپ نے بنی ظفر کے ایک وسیع مکان میں سیدھے سادھے مگر اسلامی دنیا کے بہترین مدرسے کا افتتاح کیا جو ہجرت مدینہ کے بعد "مدرسہ اصحاب صفہ" کی صورت میں پھلا پھولا جہاں ہر وقت طلبہ علوم دینیہ کی کثیر تعداد موجود رہتی۔ اسی کے فیض یافتہ پوری دنیا میں پھیلے اور انسانیت کو جہالت کے اندھیروں سے نکال کر ابدی فلاح اور کامیابی کی طرف راہنمائی کی۔

برصغیر پر انگریزی سامراج کے کالے سائے چھائے جب اسلامی تعلیمات مکتب و مدارس کو ختم کرنے کی کوشش ہونے لگی۔ اسی تاریکی دور میں مولانا قاسم نانوتویؒ نے ایک انقلابی قدم اٹھایا اور ایک درسگاہ کی بنیاد رکھی۔ 1866ء میں ضلع سہارنپور کے ایک چھوٹے سے قصبے میں قائم ہونے والی یہ درسگاہ "دارالعلوم دیوبند" کے نام سے مشہور ہوئی۔ دارالعلوم دیوبند وہ عظیم دینی درسگاہ ہے جس نے ڈھائی سو سال کے عہد غلامی میں علوم دین کی حفاظت کر کے تاریخ کے دھارے کوبدل دیا اور علوم دینیہ کے میدان میں وہ بے نظیر شخصیتیں پیدا کیں جو اس صدی کی مجدد ثابت ہوئیں اور جن کے چشمہ فیض سے ایک عالم سیراب ہوا۔ برصغیر کے خطے پر اس عظیم ادارے کے جو احسانات ہیں ان میں شہیدِ اسلام حضرت مولانا محمد عبد اللہ کی سرپرستی میں قائم ہونے والی تاریخی اور عظیم درسگاہ جامعۃ العلوم الاسلامیۃ الفریدیۃ بھی ہے۔